(که سپوره وي که پوره وي نو په شریکه به وي (باچاخان)

کبیر ستوری

[05.Apr.2019 - 15:52]

مـړ هغه چې نه يي نوم نه يی نښان وی 

تـل تـر تـله په ښـه نــوم پــايی ښـاغلـی

آج 4 اپریل اور4 اپریل 2006 کو ایک ایسی شخصیت اس فانی دنیا سے رخصت ہوا جس کے اپنی قوم کے ساتھ نہائت محبت تھی اور تمام زندگی قوم کے خدمت خاموشی سے کرتے رہے۔۔ 

عبد الکبیر ستوری۔۔ جی کبیر ستوری ،اکثر یہ نام سنتے ہیں لیکن شاید ہم میں سے ذیادہ لوگ نہیں جانتے کہ یہ کون ہے۔۔جب ستورے (ستارہ) کا نام اتا ہے تو ذہین اسمانی ستاروں کے طرف چلا جاتا ہے جو اسمان میں چمکتے یں۔۔ لیکن ہمارا ستوری اسمان و زمین دونوں پر چمکتا ہے۔۔جی ہاں ڈاکٹر کبیر ستوری

ڈاکٹر کبیر ستوری کی زندگی کے کئ پہلو ہیں اور ہر پہلو الگ کہانی رکھتی ہے۔  پشتون قوم پرست لیڈر، شاعر اور ادیب ، ان کی زندگی کا احاطہ میرے بس کا کام نہیں لیکن صرف تعارف ہی کرسکونگا۔۔

کبیر ستوری 6 اپریل 1942ء کو افغانستان کے صوبہ کنڑ کے ضلع خاص کنڑ میں پیدا ہوئے، کبیر ستوری کا افغانستان کے مشہور قبائل میردادخیل یوسفزئی سے تعلق ہے۔ کبیر ستوری نے پرائمری تک تعلیم آبائ علاقہ خاص کنڑ سے حاصل کی۔۔ مذید تعلیم کے لیئے کابل تشریف لے گئے جہاں رحمان بابا مڈلاسکول کابل سے تعلیم حاصل کی۔۔ یہاں سے تعلیم مکمل کرنے کے  بعد  افغانستان کی حکومت نے 1964میں کبیر ستوری کو سکالرشپ دیکر جرمنی میں اعلٰی تعلیم کے لیے بیجھ دیا ۔۔ جرمنی میں انہوں نے  گوئٹے یونیورسٹی ،فرینکفرٹ،  کولوگنی یونیورسٹی اور  ماربرگ یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس، سوشیالوجی اور فلسفہ کی تعلیم حاصل کی اور قدرتی سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

 کبیر ستوری نے فرینکفرٹ میں افغان اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی اوراس طلبہ تنظیم کے بانی صدر رہے۔۔ 1972ء میں ان کو افغان طلبہ کی جرنل یونین کا چیرمیین منتخب کیا گیا اور 1976ء میں انہیں پشتون اور بلوچی نیشنل لبریشن یونین کا چیرمین بنایا گیا ۔۔ انہوں نے 1973ء میں ڈوئچے ویلے وائس آف جرمنی میں پشتو سروس میں بطور اناونسر اور ایڈیٹر خدمات انجام دی، 1981ء میں جرمنی میں انہوں نے پشتون سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد رکھی اور اس تنظیم کے پہلے چیرمین منتخب ہوئے۔

ڈاکٹر کبیر ستوری نے زندگی کا زیادہ عرصہ جرمنی میں گزارا  لیکن جرمنی نے ڈاکٹر کبیر ستوری میں کوئ تبدیلی نہ کی بلکہ وہ کنڑ کا  وہی پختون ہی رہا اور جرمنی میں اس طرح رہا جیساعام سادہ پختون اپنے حجرے  میں ، رہائش گاہ پر مہمانوں کا جگھمٹا رہتا ۔۔ دسترخوان پر ہر وقت مہمان موجود ہوتے۔

انہوں نے 1972ء اور 1976ء کئی میگزین جن میں افغان طلبہ تنظیم کے زیر انتظام ماہنامہ سپرغئی، اولس غاگ میں بطور ایڈیٹر کام کیا۔

ادارت

ماہنامہ سپرغئی (1972)

ماہنامہ اولس غاگ (1976)

ماہنامہ پیر روخان (1978)

ماہنامہ لمبہ (1985)

ماہنامہ دی خیبر واگمہ (1986)

ماہنامہ پشتونخوا (1978)

 دی پختانو کلتوری ٹولنہ 1985

 پختون کور (1993)

 پختونخوا پوہانیے ڈیرہ (1998)

 

عبد الکبیر ستوری 16 جنوری 1983ء کو  افغانستان سے پاکستان کی حدود میں داخل ہو رہا تھا تو اسے گرفتار کیا گیا، جب اس کو گرفتارکیا گیا تو اس وقت پاکستان میں جرنل ضیاالحق کی حکومت تھی اس وجہ سے کبیرستوری کو پاکستان کی سالمیت کے خلاف خطرہ سمجھ کر گرفتار کیا گیا، حالانکہ ایسی کوئ بات نہیں تھی۔۔ اسپرعالمی انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے  اس کی گرفتاری کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔ پھربھی ڈھائ سال تک کبیر ستوری قید میں رہے اس کے بعد جرمنی کے ممتاز سیاسی و سفارتی رہنماوں خصوصا ڈوئچے ویلے کی کوششوں کی وجہ سے ان کو رہا کر دیا گیا ۔

کبیر ستوری کوڈاکٹر نجیب اللہ اور حامد کرزئی کی حکومتوں میں شمولیت کی دعوتیں دی گئیے لیکن  اپنے اصولی موقف کی بنا پر ستوری صاحب نے ان حکومتوں میں شامل ہونے  انکار کر دیا جسے پختونوں نے  سراہا۔۔

آپ درج ذیل کتب کے خالق ہیں۔۔

 

۔1-- سكروټه : (شعری مجموعہ

 ۔2-- پښتونخوا  

۔3-- وېره 

۔4-- د هوښيارتيا د كلتوري بڼو تله 

۔5-- د وېرې تله 

۔6 -- ژوندي خيالونه : (شعری مجموعہ

۔ 7-- د قلم توره

۔ 8-- د هوښيارتياہ تله ۔

 9-- ژبساپوهنه 

-10-- سندريز پېغام : (شعری مجموعہ

۔۔11-- د هوښيارتيا كلتوري بې پلوه تله 

۔12-- د پيداېښتي بڼو د هوښيارتيا تله 

 ۔۔13-- خوږې مسرۍ : (شعری مجموعہ)

 ۔۔14- خوب معنا  

اپنی قوم، وطن اور اپنی مادری زبان کے لیے بے شمار خدمات انجام دینے کے بعد 4 اپریل 2006ء کبیر ستوری دل کا دورہ پڑنے سے ویسیلنگ جرمنی میں انتقال کر گئے اور ان کی لاش کو جرمنی سے افغانستان لاکر ان کے آبائی قبرستان خاص کنڑ میں سپرد خاک کیا گیا، سوگوراں میں  بیوی، پانچ بیٹے اور دو بیٹیان شامل ہیں۔

نثار علي خان

-
بېرته شاته